1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں آسٹریلوی صحافی کو مودی حکومت پر تنقید کی سزا ملی؟

جاوید اختر، نئی دہلی
24 اپریل 2024

اے بی سی نیوز کی جنوبی ایشیا کی بیورو چیف اوانی دیاس نے دعویٰ کیا ہے کہ مودی حکومت پر تنقید کی وجہ سے ان کے ویزے میں توسیع نہیں کی گئی۔ بھارتی حکومتی ذرائع نے تاہم اس الزام کو بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4f7fQ
مودی حکومت پر بھارت میں میڈیا کی آزادی کو کچلنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں
مودی حکومت پر بھارت میں میڈیا کی آزادی کو کچلنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیںتصویر: Newslaundry

آسٹریلیا کے قومی نشریاتی ادارے اے بی سی نیوز کی دہلی میں مقیم جنوبی ایشیا کے لیے بیورو چیف اوانی دیاس اپنی رپورٹوں میں بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی بعض پالیسیوں اور اقدامات پر تنقید کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ مودی حکومت نے ان کے لیے بھارت سے رپورٹنگ کرنا بہت مشکل بنا دیا ہے۔

دیاس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ بھارت میں جاری قومی انتخابات کے پہلے مرحلے کی پولنگ کے دن انہیں اچانک ملک چھوڑ دینے کا حکم دے دیا گیا، کیونکہ ان کے ویز ے کی مدت میں توسیع نہیں کی گئی تھی۔ انہوں نے لکھا، ''ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ بھارتی وزارت داخلہ کی ہدایت پر مجھے انتخابی عمل کی کوریج کے لیے منظوری نہیں ملے گی۔ ہم کو ان قومی انتخابات کے پہلے ہی دن ملک چھوڑنا پڑا جسے مودی 'جمہوریت کی ماں‘ کہتے ہیں۔‘‘

بھارت میں بی بی سی کے خلاف حکومتی کارروائی پر عالمی ردعمل

بھارت کا ٹوئٹر کو بند کرنے کی دھمکی دینے کے الزام سے انکار

جنوری 2022 سے بھارت میں کام کرنے والی دیاس نے کہا کہ بھارتی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے انہیں فون کر کے بتایا کہ ان کے ویزے کی تجدید نہیں کی جائے گی۔

دیاس کے مطابق انہیں بتایا گیا کہ یہ فیصلہ مبینہ طور پر سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی کوریج کی وجہ سے کیا گیا، جنہیں گزشتہ سال کینیڈا میں قتل کر دیا گیا تھا۔ دیاس کے بقول، ''اس اہلکار نے مجھے خاص طور پر کہا کہ یہ میری سکھ علیحدگی پسند رہنما والی خبر کی وجہ سے کیا گیا ہے اور یہ کہ بات بہت آگے نکل گئی ہے۔‘‘

بھارت میں پریس کی آزادی پر قدغن لگانے کی ایک اور کوشش

بھارت میں دو برس کے دوران صحافیوں پر 256 حملے، رپورٹ

آسٹریلوی صحافی نے اپنی ایک پوڈکاسٹ میں کہا، ''بھارت میں کام کرنا بہت مشکل تھا، مجھے مودی کی پارٹی والے عوامی پروگراموں میں جانے کے لیے مشکلات کا سامنا تھا، حکومت نے مجھے وہ اجازت نامے بھی نہیں دیے، جو الیکشن کی کوریج کے لیے ضروری تھے۔‘‘ ان کے بقول، ''یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا گیا، نریندر مودی نے مجھے اتنا تنگ کیا کہ ہم نے وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔‘‘

بھارتی صحافی صدیق کپن کو ایک دلت خاتون کے ریپ کی اسٹوری کرنے کے لیے جاتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا تھا اور اٹھائیس ماہ بعد ضمانت پر رہائی مل سکی تھی
بھارتی صحافی صدیق کپن کو ایک دلت خاتون کے ریپ کی اسٹوری کرنے کے لیے جاتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا تھا اور اٹھائیس ماہ بعد ضمانت پر رہائی مل سکی تھیتصویر: Dhanis Kappan

بھارت کا جواب

بھارت کے ایک سرکاری اہلکار نے اس آسٹریلوی صحافی کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا، ''یہ درست نہیں ہے، یہ گمراہ کن ہے۔‘‘

اس سرکاری اہلکار کا کہنا تھا کہ اوانی دیاس نے ویزا ضابطوں کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس کے باوجود انہیں یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ان کے ویزے کی مدت میں توسیع کر دی جائے گی اور وہ انتخابات کی رپورٹنگ کر سکیں گی۔

بھارتی ذرائع کا کہنا تھا، ''آسٹریلوی براڈکاسٹنگ کارپوریشن کی جنوبی ایشیا کے لیے نامہ نگار اوانی دیاس کا یہ کہنا کہ انہیں انتخابات کی رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، درست نہیں ہے۔ یہ گمراہ کن اور شرپسندانہ ہے۔‘‘

ان ذرائع کے مطابق دیاس کے ویزے کی مدت 20 اپریل 2024 کو ختم ہو گئی تھی۔

پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں میڈیا کی ابتر صورتحال کیوں؟

بھارت میں صحافیوں کی صورت حال

مودی حکومت پر بھارت میں میڈیا کی آزادی کو کچلنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔

صحافتی شعبے کی ایک بین الاقوامی تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں اس وقت کم از کم سات صحافی جیل میں ہیں۔ رواں سال جنوری میں فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگنیکٹ نے اعلان کیا تھا کہ وہ تقریباً دو دہائیوں کے بعد بھارت چھوڑ رہی ہیں۔

انہوں نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ انہیں بھارت کی مستقل رہائش یعنی اوورسیز شہریت رکھنے کے باوجود ملک میں بطور صحافی کام کرنے سے روکا جا رہا ہے کیونکہ حکومت ان کی رپورٹنگ کو ''بد نیتی پر مبنی اور تنقیدی‘‘ سمجھتی ہے۔

ورلڈ پریس فریڈم انڈکس نے 2023  کی اپنی رپورٹ میں 180 ممالک میں بھارت کو 161 ویں نمبر پر رکھا تھا۔

امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے گزشتہ دنوں جاری کردہ رپورٹ میں بھی بھارت میں میڈیا اور صحافیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔